دروازہ سبق ۱۴ 

نوین : نیشا میرے ساتھ آؤ۔

نیشا : کیا ہوا؟ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ بتاؤ کیاہوا۔

نوین : نیشا تم میرے ساتھ آؤ۔

مجھے تم سے کُچھ پوچھنا ہے۔

نیشا : میں سمجھی نہیں، تم مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہو؟

نوین : ادھر آؤ، یہاں بیٹھو۔ میں تمہاری مدد چاہتا ہوں۔

نیشا : میں نہیں جانتی کہ میں مدد کر سکوں گی

یا نہیں لیکن بتاؤ، کیاہوا؟

نوین : میرے پاس ایک بہت قیمتی ہار ہے۔

نیشا : میں نہیں سمجھی۔

نوین : میں سمجھاؤں گا۔

نیشا : اچھا سمجھاؤ۔

نوین : اچھا سنو۔

نیشا : اچھا سناؤ۔

نوین : میں کل شام کو ساڑھے چار

بجے کھیل کر پارک سے آ رہا تھا۔

جب میں پارک سے باہر آیا تو

وہاں مجھے ایک بہت خوبصورت ہار ملا۔

نیشا : کیا ۔۔ کیا تم سچ کہ رہے ہو؟

نوین : ہاں ہاں نیشا میں سچ کہ رہا ہوں ۔

میں پوری رات نہیں سویا۔

نیشا : تم ہمیشہ میرے ساتھ مذاق کرتے رہتے ہو۔

نوین : یہ سچ ہے ۔ کیا میں ہار دکھاؤں؟

نیشا : ہاں دکھاؤ۔

نیشا : یہ ہار تم کو کیسے ملا؟ یہ بہت مہںگا ہار ہے۔

نوین : اب میں کیا کروں؟

نیشا : تم اس ہار کے بارے میں کسی کو نہ بتانا۔

نوین : کیوں نہیں؟

نیشا : ہم اناتھ ہیں۔

تم اناتھ ہو، میں اناتھ ہوں۔

ہم اس اناتھ آشرم میں رہتے ہیں

جو بہت غریب ہے۔

میرے ماں باپ نہیں ہیں۔

تمہارے ماں باپ کہاں گئے

یہ کوئی نہیں جانتا۔

نوین : تم کیا کہنا چاہتی ہو؟

نیشا : ہم اناتھ ہیں۔ اناتھ آشرم

جس میں ہم رہتے ہیں

وہاں کھلونے نہیں ہیں، مٹھائیاں نہیں ہیں،

اچھے کپڑے نہیں ہیں۔

نوین : میں سمجھا نہیں۔

،نیشا : نوین، تم یہ ہار بیچ کر اچھے

کھلونے خریدو مٹھائیاں خریدو

اچھے کپڑے خریدو۔

میں یہ ہار اناتھ آشرم کے

پرِنسِپل کو دوں گا۔

نیشا : لیکن نوین۔

نوین : نہیں نیشا میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔

پرِنسِپل کو دوں گا۔

نیشا : لیکن نوین۔

نیشا : لیکن نوین۔

نوین : نہیں نیشا مجھ سے یہ نہ کراؤ۔

میرے ماں باپ کہاں گئے

میں نہیں جانتا۔

میرے ٹیچر بتاتے ہیں

کہِ جب میں اپنے ماں باپ سے بچھڑا

میرے گلے میں یہ تھا۔

تب سے یہ میرے پاس ہے۔

میں سوچتا رہتا ہوں کہ

میرے ماں باپ میرے ساتھ ہیں۔

نوین : شریمتی جی کیا میں اںدر آ سکتا ہوں؟

پرِنسِپل : جی ہاں آئیّے اںدر آئیے۔

نوین : شریمتی جی ، سلام

پرِنسِپل : سلام نوین، سناؤ کیاہوا؟

نوین : شریمتی جی مجھے کل شام کو پارک کے باہر یہ ہار ملا۔

پرِنسِپل : کون سا ہار، مجھے دکھاؤ۔

یہ تو بہت مہںگا ہار ہے۔ تمہیں یہ کیسے ملا؟

نوین : وہیں پارک کے باہر ملا۔

پرِنسِپل : اچھا شاباش

ہم ہار کے مالک کو تلاش کر لیں گے

اور یہ ہار مجھے دے دو۔

نوین : جی اچھا، شکریہ۔

عورت : بہت بہت شکریہ پرِنسِپل صاحب۔

میں نہیں جانتی تھی کہ مجھے

میرا یہ ہار واپس ملے گا یا نہیں۔

پرِنسِپل : یہ کیسےہوا؟ یہ ہار کیسے کھویا؟

عورت : شریمتی جی ، میں نہیں جانتی۔

میں ایک دن پارک میں گھومنے گئی

اور وہیں میرا ہار کھو گیا۔

میں اس بچّے سے ضرور ملنا چاہتی ہوں۔

اس کا نام کیا ہے؟

پرِنسِپل : دیکھِیے شریمتی جی، وہ آ گیا بچّہ۔

میں ایک دن پارک میں گھومنے گئی

اور وہیں میرا ہار کھو گیا۔

نوین : سلام۔

عورت : آؤ بیٹا۔ میں تمہیں کیا انعام دوں؟

یہاں آؤ، تمہارا نام کیا ہے؟

نوین : میرا نام نوین ہے۔

عورت : یہ بہت پیارا نام ہے۔

تمہاری عمر کیا ہے؟

نوین : میری عمر پونے آٹھ سال ہے۔

عورت : بیٹا یہاں آؤ، ا

یہ تمہارے گلے میں کیا ہے۔

نوین : یہ میرے گلے میں ہمیشہ سے ہے۔

پرِنسِپل : لگ بھگ سوا چار سال پہلے

جب نوین بہت چھوٹا تھا

یہ ہم کو ممبئی کے ایک میلے میں ملا تھا۔

یہ مالا اس کے گلے میں جب سے ہے۔

عورت : کیا وہ دیوالی کا میلا تھا ؟

پرِنسِپل : جی ہاں جی ہاں، لیکن ۔۔

عورت : اس مالا میں میری شادی کی اںگوٹھی ہے۔

پرِنسِپل صاحب یہ میرا بیٹا ہے

منا منا۔ منا میں بہت روئی

میں کئی مہینوں تک نہیں سوئی۔

بیٹا میں کئی سال تک تمہیں ڈھوںڈتی رہی۔

تم کہاں تھے؟

تمہی میرا ہار ہو

میں تمہیں کیا انعام دوں؟

نوین : ماں آپ ہی میرا انعام ہیں۔