نیشا : کیا ہوا؟ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ بتاؤ کیاہوا۔
نیشا : میں سمجھی نہیں، تم مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہو؟
نوین : ادھر آؤ، یہاں بیٹھو۔ میں تمہاری مدد چاہتا ہوں۔
نیشا : میں نہیں جانتی کہ میں مدد کر سکوں گی
نوین : میرے پاس ایک بہت قیمتی ہار ہے۔
نوین : میں کل شام کو ساڑھے چار
بجے کھیل کر پارک سے آ رہا تھا۔
وہاں مجھے ایک بہت خوبصورت ہار ملا۔
نیشا : کیا ۔۔ کیا تم سچ کہ رہے ہو؟
نوین : ہاں ہاں نیشا میں سچ کہ رہا ہوں ۔
نیشا : تم ہمیشہ میرے ساتھ مذاق کرتے رہتے ہو۔
نوین : یہ سچ ہے ۔ کیا میں ہار دکھاؤں؟
نیشا : یہ ہار تم کو کیسے ملا؟ یہ بہت مہںگا ہار ہے۔
نیشا : تم اس ہار کے بارے میں کسی کو نہ بتانا۔
نیشا : ہم اناتھ ہیں۔ اناتھ آشرم
وہاں کھلونے نہیں ہیں، مٹھائیاں نہیں ہیں،
،نیشا : نوین، تم یہ ہار بیچ کر اچھے
نوین : نہیں نیشا میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔
نوین : نہیں نیشا مجھ سے یہ نہ کراؤ۔
کہِ جب میں اپنے ماں باپ سے بچھڑا
نوین : شریمتی جی کیا میں اںدر آ سکتا ہوں؟
پرِنسِپل : جی ہاں آئیّے اںدر آئیے۔
پرِنسِپل : سلام نوین، سناؤ کیاہوا؟
نوین : شریمتی جی مجھے کل شام کو پارک کے باہر یہ ہار ملا۔
پرِنسِپل : کون سا ہار، مجھے دکھاؤ۔
یہ تو بہت مہںگا ہار ہے۔ تمہیں یہ کیسے ملا؟
ہم ہار کے مالک کو تلاش کر لیں گے
عورت : بہت بہت شکریہ پرِنسِپل صاحب۔
میرا یہ ہار واپس ملے گا یا نہیں۔
پرِنسِپل : یہ کیسےہوا؟ یہ ہار کیسے کھویا؟
عورت : شریمتی جی ، میں نہیں جانتی۔
میں ایک دن پارک میں گھومنے گئی
میں اس بچّے سے ضرور ملنا چاہتی ہوں۔
پرِنسِپل : دیکھِیے شریمتی جی، وہ آ گیا بچّہ۔
میں ایک دن پارک میں گھومنے گئی
عورت : آؤ بیٹا۔ میں تمہیں کیا انعام دوں؟
نوین : میری عمر پونے آٹھ سال ہے۔
نوین : یہ میرے گلے میں ہمیشہ سے ہے۔
پرِنسِپل : لگ بھگ سوا چار سال پہلے
یہ ہم کو ممبئی کے ایک میلے میں ملا تھا۔
یہ مالا اس کے گلے میں جب سے ہے۔
عورت : کیا وہ دیوالی کا میلا تھا ؟
پرِنسِپل : جی ہاں جی ہاں، لیکن ۔۔
عورت : اس مالا میں میری شادی کی اںگوٹھی ہے۔