دروازاہ سبق ۷

امبر:کون ہے ؟
سیما: میں ہوں، سیما ۔
امبر: سیما، سیما کون ؟
سیما: تمہاری دوست ، سیما ۔
امبر:اَرے ! سیما، اَںدر آؤ، آؤ ۔
مُجھے معلوم تھا کہ تم ایک دِن ضرور آ رہی ہو ۔
سیما: امبر۔۔۔
   امبر: ہاں سیما، میں پاںچ سال سے تمہارا انتظار کر رہا تھا ۔
 ،اور میں یہ جانتا تھا کہِ تم سچی ہو
  اور آج تم میرے سامنے ہو ۔
سیما:لیکِن اَمبر، تم بتا ؤ ،تم کیسے ہو؟
امبر: میں بہُت اَچّھاہوں، اور بہُت خوش ہوں ۔
،آج تم پاںچ سال کے بعد علیگڑھ میں ہو
دیکھو میرے کمرے میں صرف تمہاری ہی یادیں ہیں ۔
   یونیورسٹی کے وہ دِن کِتنے اَچّھے تھے ۔۔۔
   یاد کرو ، وہ ہماری پہلی مُلاقات تھی ۔
      امبر: معاف کیجِیے، یہ میری غلطی تھی ۔
   سیما: نہیں نہیں، میں ہی سامنے نہیں دیکھ رہی تھی، میری غلطی ہے ۔
امبر: نہیں، یہ میری غلطی ہے ۔ 
سیما: اَچّھا یہ دونوں کی غلطی ہے ۔
امبر: میں وہیں جا رہا تھا، کیا میں آپ کے ساتھ آ سکتاہوں؟
  
  امبر: آپ کہاں جا رہی ہیں؟
    سیما: میں پڑھنے جا رہی ہُوں ۔
امبر: میں وہیں جا رہا تھا، کیا میں آپ کے ساتھ آ سکتاہوں؟
سیما: جی نہیں، مُجھے لائبریری کا راستہ معلوم ہے۔۔
امبر: اَب یاد کرو ہماری دُوسری مُلاقات ۔
  شاید تم اَپنی کلاس جا رہی تھیں ۔
!امبر: اَرے سیما، سیما جی سُنِیے
کیا یہ کِتاب آپ کی ہے ؟
یہ کِتاب میرے پاس تھی
اور میری ایک کِتاب آپ کے پاس ہے ۔
سیما: آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہے؟
امبر: آپ کا نام اِس کِتاب پر ہے ۔
، میرا نام اَمبر ہے ۔ میں یہاں بی۔ ا ے۔ کر رہا ہُوں
آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟ 
سیما: میں بی۔ایس۔سی۔ کر رہی ہوں۔
،امبر: میں چائے پینے جا رہا تھا
کیا آپ بھی میرے ساتھ آ سکتی ہیں ؟

سیما: مُجھے چائے بہُت پسںد ہے، لیکِن میں آج نہیں آ سکتی
- میں پڑھنے جا رہی ہوں خُدا حافظ
   اِسکے بعد ہم لوگ روز ہی مِلتے تھے ۔
کبھی ہم چائے کی دُکان پر مِلتے تھے
کبھی کبھی ساتھ ساتھ ہم فِلم دیکھنے بھی جاتے تھے ۔
تو کبھی پارک میں گھُومتے تھے ۔
کبھی ساری رات لائبریری میں پڑھنے جاتے تھے ۔
   ،تم بہُت اَچّھا گاتی تھیں
مُجھے تمہارے گانے بہُت پسںد تھے ۔
ہم ساتھ ساتھ بھی گاتے تھے ۔
تین سال سے ہم ایک دُوسرے کے اَچّھے دوست تھے ۔
تم میرے سامنے ہو
تم میرے سامنے ہو
تم کیوں خاموش ہو؟
کُچھ بات کرو
تم میرے سامنے ہو
ہر جگہ ساتھ ساتھ جاتے تھے
ہم بہاروں کے گیت گاتے تھے
مسکرا دو
کُچھ بات کرو
تم میرے سامنے ہو
،ایک دِن ہم دوگھںٹے سے گھوم رہے تھے
 تم اَپنے بارے میں بتا رہی تھیں۔ّ۔۔
امبر: تم کیوں خاموش ہو ۔
سیما: مُجھے کل سے کُچھ بُخار ہے ۔
امبر: کیا بات ہے ، بت
سیما: میں اَگلے ہفتے امتحان کے بعد اَپنے گھر جا رہی ہوں۔
اَب میرےماں باپ مُجھے سکُول بھیجنا نہیں چاہتے ۔
امبر: لیکِن تم کہ رہی تھیں کہ تم ڈاکٹر بنّنا چاہتی ہو ۔
سیما: ہاں ہاں، میں ڈاکٹر بنّنا چاہتی ہوں
   لیکِن میرے ماں-باپ میری شادی کرنا چاہتے ہیں ۔
میں دو سال سے اُنہیں بتا رہی ہوں کہ میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔
امبر: لیکِن ۔۔
سیما: لیکِن وہ کہتے ہیں کہ
تم شادی کے بعد بھی ڈاکٹر بن سکتی ہو ۔
میں اَبھی شادی کیسے کر سکتاہوں؟
،امبر: لیکِن میں اَبھی پڑھنا چاہتاہوں
سیما: میں تم سے وعدہ کرتی ہُوں امبر، میں شادی کرنے نہیں ،جا رہی ہوں
میں اَپنے ماں باپ سے صاف صاف بات کرنے جا رہی ہوں ۔
،تمہارے پاس ضرور واپس آ رہی ہوں
امبر: مُجھے آج سے تمہارا انتظار ہے ۔
،اِس کے بعد کوئی خط نہیں
کوئی ٹیلیفون نہیں ۔
یاد کرو وہ دِن
  ،جب میں ٹرین سٹیشن پر تھا
،اور تم ٹرین میں تھی
اور ٹرین جا رہی تھی۔
کیاتم کو معلوم ہے
کہِ تب سے میں تمہارا انتظار کر رہا تھا؟
لیکن کوئی خط نہیں، کوئی ٹیلیفون نہیں
امبر: اور ہر ہفتے میں تم کو خط لِکھتا تھا ۔
اور آج تم میرے سامنے ہو، پاںچ سال بعد ۔
!اَرے! میں اِتنی دیر سے باتیں کر رہاہوں تم سے
آؤ، اَںدر آؤ ۔
سیما: اَرے امبر ، میری بات تو سنو ۔
سُنِیے! کہاں ہیں آپ؟ اَںدر آئیّے ۔
اِن سے مِلو ۔ یہ ہیں میرے شوہر ۔
دو دِلوں کےخیال مِلتے ہیں
تبھی باغوں میں پھُول کھِلتے ہیں
مسکرا دو
کُچھ بات کرو
تم میرے سامنے ہو ۔۔۔